ریاض-- سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار عوام کی قلیل تعداد نے اپنے حق میں مظاہرہ کیا ہے۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کے مطابق سرکاری سطح پر پابندی کے باوجود ریاض میںدرجنوں مرداورخواتین جمع ہوئے جنہوں نے ٹرائل کے بغیر اپنے رشتہ داروں کو زیرحراست رکھنے کیخلاف احتجاج کیا ۔ یہ لوگ وزارت داخلہ کے باہر جمع ہوئے اور اپنے رشتہ داروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ ایک خاتون نے پلے کارڈ اٹھارکھا جس پر لکھا تھا ’خدا راہمارے قیدیوں کو رہا کرائیں‘ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی جنہوں نے مظاہرین کو وزارت داخلہ سے دور رکھا۔
Monday, February 07, 2011
سعودی عرب، ریاض میں عوامی مظاہرہ
Friday, November 27, 2009
Jamarat Bridge - Mina - New 5 Layered
Jamaraat Bridge in MakkahLast Updated: Nov 10, 2009 | |||
Client | | | Saudi Government | Actual Value: 1.2bn USDJamaraat Bridge in Makkah |
Contractors | | | Main Contractor: Saudi Binladin Group | |
Consultants | | | Main Consultant: Dar Al Handasah Consultants | |
Country | | | Saudi Arabia | |
Category | | | Infrastructure | |
Project Type | | | Others | |
Project Duration | | | From: Q1 2006 Actual To: Q4 2009 Actual |
Status | | | Construction | |
Scope | | | The Jamaraat Bridge is a pedestrian bridge in Mina, Saudi Arabia near Mecca used by Muslims during the stoning of the devil ritual of the Hajj. The bridge was originally constructed in 1963, and has been expanded several times since then. The purpose of the bridge is to enable pilgrims to throw stones at the three jamrah pillars from either the ground level or from the bridge. The pillars extend up through three openings in the bridge. The new Jamrat Bridge is designed to hold 250,000 pilgrims an hour. | |
Schedule | | | Dar Al Handasah Consultants is the main consultant, while Saudi Binladin Group is the main contractor. Construction started early of 2006. In October 2009, 70 percent of the bridge is completed. The project will be fully operational during the Hajj season of 2009. | |
Remark | | | "Jamaraat" is the plural of Jamrah which is the Arabic term for each of the pillars involved in the stoning ritual. It literally means a small piece of stone or a pebble. |
Sunday, November 08, 2009
Thursday, November 05, 2009
سنگِ اسود کا بوسہ لینے میں احتیاط کیجئے ! ,,,,انداز بیاں …سردار احمد قادری
ادھر سعودی حکام نے عازمین حج کو وارننگ دی ہے کہ انہیں دوران حج سیاسی مسائل اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی اور اگر کسی نے احکام کی پابندی نہ کی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اس سال سعودی حکام حرمین پہنچنے والے مسلمان ایرانی مذہبی رہنماوٴں کی باتوں سے حد درجہ مضطرب و پریشان ہیں۔ انہوں نے عازمین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”بیت اللہ کا حج کرنے والے ان مسائل و مشکلات سے ہرگز لاتعلقی اور بے پروائی اختیار نہ کریں جن مشکلات کا سامنا آج عالمِ اسلام کو بالخصوص عراق، افغانستان، فلسطین اور پاکستان کے ایک حصے کو ہے“۔ ایرانی آیت اللہ کی بات ایرانیوں کے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی حیثیت کسی صحافی یا جمعہ کے خطیب جیسی نہیں ہوتی کہ ان کی بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے اڑا دی جائے۔ ان باتوں پر ترکی کے وزیراعظم یا سعودی وزیر خارجہ کی جانب سے جو احتجاج کیا گیا ہے ممکن ہے حکومت ایران اس کا یہ جواب دے کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے لیکن میرے حساب سے وہ اسی مظاہرے اور احتجاج کا سبق پڑھا رہے تھے جس نے اسّی کی دہائی میں اسلام کے ایک رکن حج کو گدلا کردیا تھا اور دنیائے اسلام کو پریشانیوں میں ڈال دیا تھا۔ حج کے موقع پر صرف ایک یہی پریشانی نہیں عازمین حج کے اخراجات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ عازمین حج کے فضائی کرایوں میں پہلے ہی اضافہ ہوچکا ہے، اب حرم کعبہ کے اطراف رہائش کے لئے رہائشی اخراجات میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ مسجد الحرام کے اطراف گرین ایریا میں شیلٹرز کی شرح 2700 سعودی ریال سے بڑھا کر 3500 ریال کردی گئی ہے۔ دوسری رہائشی پٹی میں جسے وائٹ ایریا کہا جاتا ہے رہائشی فیس 1600 ریال سے بڑھا کر 2500 ریال کردی گئی ہے۔ اسی طرح بیرونی احاطہ میں رہائشی فیس 1200 سے بڑھا کر 1500 ریال کردی گئی ہے۔ چونکہ فضائی کرائے کے زمرے میں پٹرول کو جواز بنایا گیا ہے اس لئے پٹرول کے ساتھ حج بھی مہنگا ہوگیا ہے۔
اب حج کی بات چلی ہے تو کیوں نہ اپنے ذہنی خدشات، سوالات اور تحفظات کی بات بھی کرتا چلوں۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کو دیانت دارانہ طریقہ پر ہم تک پہنچائیں کیا وہ اپنے اس فرض کو ادا کرنے میں دیانت دار رہتے ہیں؟ یا انہوں نے خود کو ”دینی و مذہبی حکمران“ سمجھ کر مسلمانوں کو چرب زبانی کی لاٹھی سے پیٹ پیٹ کر ”سیدھا“ کرنے کی قسم کھا لی ہے۔ وہ صرف اسلام اسلام کے ورق کوٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور صحیح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ مذہب یا دین سے متعلق کسی سوال کا تشفی و تسلی بخش جواب دے سکیں۔ میرے ساتھ خود کو ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔ میں نے ایمسٹرڈیم میں مولانا طاہر القادری کو ایک اجتماع میں ایک تحریری سوال نامہ پیش کیا جو ان کے نائبین نے وصول کرکے مولانا کی خدمت میں پیش کیا۔ میرا پہلا سوال تھا کہ حج بدل کا حکم قرآن کریم کی کس آیت میں ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر جو قربانی مسلمان کرتے ہیں کیا مقام حج کے علاوہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے؟ اگر یہ فرض ہے تو اس کا حکم غیر مقام حج کیلئے قرآن کی کس آیت سے ثابت ہے؟
حج بدل کا کوئی حکم میری نظر سے نہیں گزرا۔ یہ سلسلہ کیسے قائم ہوا اور کس نے ایجاد کیا اس پر میں یہاں بحث نہیں کروں گا صرف اتنا عرض کروں گا کہ مرنے کے بعد انسان کا عمل سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی کتاب عمل بند کردی جاتی ہے اور قرآن کریم کا صاف اعلان ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اُٹھائے گا۔ کیا کوئی مفتی دین یا کوئی اور واعظ و شیخ تاریخ سے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ کسی صحابی نے حج بدل کیا ہو؟ یا حضور اکرم یا خلفائے راشدین کے زمانے میں مسلمانوں میں حج بدل کا رُجحان قائم ہو؟ اسی طرح غیر مقام حج پر جانورو کی قربانی کیسے واجب ہے ، میں نے اس سلسلے میں قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے، مجھے اللہ کی بات میں کوئی حوالہ نہ ملا۔ پھر میں نے رسول اللہ کی مقدس سوانح حیات کا مطالعہ کیا میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ آپ نے ان ایام میں جب آپ نے حج ادا نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ہو۔ میں مانتا ہوں کہ دین کے معاملے میں ایک طالب علم ہوں یا دین کے معاملے میں نابینا رہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم میں وہ آیات مجھ کو نظر نہ آئی ہوں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ قربانی دنیا کے ہر اہل زر مسلمان پر واجب ہے۔ قربانی سے متعلق قرآن میں سورة البقرة کی آیت ۶۹۱، سورة الحج کی آیت ۴۳،۸۱ اور 37، 36 ہے جو حج سے ہی وابستہ ہے لیکن ان میں کہیں بھی کوئی ایسی بات درج نہیں جس سے میری تشفی ہوسکے۔ ہے کوئی دانشور، علما و مشائخ جو میری اس تشنگی کو قرآنی آیات کے حوالے سے بجھائ
Sunday, October 25, 2009
Saturday, August 29, 2009
سعودی شہزادہ محمد بن نائف پر ناکام قاتلانہ حملہ
Sunday, August 16, 2009
Indonesian Maids Face Similar Woes in Malaysia
JAKARTA, 11 August 2009 (IRIN) - Public outcry over an Indonesian domestic worker’s alleged abuse by her Malaysian employer has prompted the Indonesian government to demand better protection for its citizens working in the neighbouring country.
With red blisters and scabs on her face and upper body, Siti Hajar fled her employer's house and sought shelter at the Indonesian embassy in the Malaysian capital, Kuala Lumpur, in June.
Hajar told the media her female employer had hit her and poured boiling water over her and repeatedly beaten her with a cane over a 34-month period. Her ex-employer has since been charged and could face 20 years in prison.
Her story of abuse is one of several involving Indonesians in Malaysia that have made headlines in recent years.
Last year, in a high-profile case that began in 2004, a Malaysian court sentenced a housewife to 18 years in prison for three attacks on her Indonesian domestic worker, Nirmala Bonat, using an iron and boiling water.
Protective measures
After Hajar’s story made the headlines in June, Indonesia's Ministry of Manpower and Transmigration temporarily suspended sending domestic workers to Malaysia until the two countries could agree measures to protect them.
Indonesian and Malaysian officials have since met to discuss a revision of a 2006 Memorandum of Understanding (MoU) on domestic workers.
The MoU has been criticized by human rights advocates for not being strong enough to protect workers from abuse, including having to work gruelling hours for low salaries.
The Indonesian government wants a new agreement that entitles domestic workers to basic rights such as days off and periodic salary increases, and allows them to retain their passports. Under the current MoU, employers have the right to hold employees’ passports while the workers are given identity cards issued by Malaysian authorities.
Indonesia’s Foreign Minister Hassan Wirajuda said Malaysia had agreed in principle to meet the demands. "There is progress but we will need to put it in a written document."
About two million Indonesians work in Malaysia, many as domestic helpers and plantation labourers. Indonesian migrant workers sent home US$8.2 billion in 2008, according to the National Agency for the Placement and Protection of Indonesian Workers, making remittances one of the country’s top foreign-exchange earners.
Photo: Jefri Aries/IRIN |
Several cases of abuse involving Indonesian maids in Malaysia have made the headlines in recent years |
Rights activists pointed out that part of the problem was that Indonesian migrant workers were not adequately protected in their own country and blamed poor regulation.
"Malaysia is not 100 percent to blame in this case," said Anis Hidayah, executive director of Migrant Care, which lobbies for Indonesian workers’ rights overseas. "There should be changes in both countries' labour laws."
In a report this year, Human Rights Watch (HRW) urged the Indonesian government to establish the standards at home that it demands from others.
“Those considered formal workers in Indonesia are entitled to a minimum wage, overtime pay, an eight-hour workday and 40-hour work week, a weekly day of rest, and vacation. Domestic workers are not,” according to HRW.
Albert Bonasahat, coordinator for migrant worker protection at the International Labour Organization in Jakarta, said Indonesia would be better placed to bargain in negotiations with Malaysia if it passed its own legislation to protect domestic workers at home. "We should treat our workers at home the way we want them treated overseas."
Hidayah said her group had received thousands of complaints from domestic workers in Malaysia and that most cases of abuse went unreported.
"Even for cases reported by the media, the majority of them didn't reach clear legal resolution and in some cases they stopped at the investigation stage," she said.
atp/jk/mw
Tuesday, June 30, 2009
زواجِ المسیار ، متعہ یا Legal Prostitution
حشام احمد سید |
پچھلے کئی صدیوں سے امت مسلمین عجیب خلفشار کا شکار ہے ۔ بہت سے معاشرتی مسائل کو سلجھانے کی بجائے یہ الجھانے پہ تلی ہوئی ہے۔ اب تک تو جماعت اہل سنت نے فقہ جعفریہ کے فتوے متعہ ( عارضی شادی ) کی خلاف ایک محاذ آرائی کر رکھی تھی ، نہ جانے کتنی کتابیں اس موضوع پہ لکھی گئیں اور علمأ کے کتنے شب و روز اسی مناظرے میں صرف ہوئے ، قرآن کی کتنی آیتوں کو کھنگالا گیا ، کتنی حدیثیں اس کے رد میں سنائی گئیں ، کتنی روایتوں سے اسے حرام قرار دیا گیا لیکن یہ کیا ہوا کہ مکہ مکرمہ میں اسلامی فقہ اکیڈمی نے اپنے ١٨ ویں اجلاس میں مختلف النوع شادی کے بارے میں فتوے جاری کئے جس میں خاص طور پہ طلاق کے ساتھ مشروط شادی ، عارضی شادی ، خفیہ شادی ، روایتی شادی ، فرینڈ شپ شادی ، سول میرج اور تجرباتی شادی شامل ہیں۔ اس اکیڈمی نے زواج المسیار یا اس جیسی دیگر شادیوں کی اجازت دی جس میں شادی کے جملہ شرائط و ضوابط پورے کئے گئے ہوں۔ اسلامی فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی کے تحت ہے لیکن یہ ایک آزاد خود مختار اسلامی و علمی ادارہ ہے، جو امت مسلمہ کے منتخب علما و فقہا پر مشتمل ہے ۔ اس اجلاس میں ٦٠ علما و فقہا شریک تھے ۔ شادی کی شرائط جو الازہر یونیورسٹی کے علما سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں کہ : ١۔ شادی کے لیے ولی امر اور گواہوں کی موجودگی ٢ ۔ مہر ٣۔کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو یعنی مسلم عورت کا نکاح غیر مسلم مرد سے نہیں ہوسکتا اسی طرح مشرکہ سے نکاح نہیں ہو سکتا ٤ ۔شادی کا اعلان ضروری نہیں ہے اسے خفیہ رکھا جا سکتا ٥ ۔اگر عورت رہائش کے حق سے دستبردار ہو جائے تو بھی ایسی شادی جائز ہے۔ زواج المسیار ایسی شادی ہے کہ جس کے تحت بیوی مکان ، نان نفقہ اور دولت کی تقسیم سے مکمل یا جزوی طور پر دستبردار ہو جاتی ہے اور اس بات پہ راضی ہوتی ہے کہ شوہر دن رات میں جب چاہے اس کے یہاں آئے جائے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے اس فتوے سے زبردست اور متضاد رد عمل سامنے آیا ہے۔ کچھ مرد وزن نے فوری طور پہ اس سے استفادہ کیا اور کہنے لگے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے، یہ شادی عارضی بھی ہو سکتی ہے اور خفیہ بھی اور مرد کو شادی کی مروجہذمہ داریوں سے بھی مبرہ کر دیتی ہے سو بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا جواز فراہم کر تی ہے۔جو علما اس کے حق میں ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ نوجوان مرد و عورت کو حرام کاری کی بجائے اس شادی کا فائدہ اٹھانا چاہیے ( یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ بسم اللہ پڑھ کر وہسکی پی جا سکتی ہے ) ، موافقت میں جو لوگ ہیں ان کی وضاحت یہ بھی ہے کہ المسیار سے معمر کنوارپن کا مسئلہ اور سیٹلائٹ چینل و دیگر فواحشات و شہوانی محرکات کی فتنہ انگیزیوں سے پیدا ہونے والی اخلاقی انحراف کا خاتمہ ہوگا۔ ( رات بھر خوب پی صبح ہوئی توبہ کر لی : رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی )، یعنی بجائے اس کے کہ لوگوں کی تربیت ان معنوں میں کریں کہ اخلاق باختہ پروگرام نہ دیکھیں ور نہ پروڈیوس کریں اور غصِ بصر اور باطنی طہارت کی اہمیت کا احساس دلائیں یا معاشرے میں ایسے قوانین نافذ کریں جس سے طلاق کم سے کم ہو اور اعلانیہ و حلال شادیوں کی آسانی ہو، اس میں پیدا کی ہوئی انفرادی اور معاشرتی یا ثقافتی رکاوٹ دور ہو ۔ ان علما کو یہی نظر آیا کہ عورت و مرد کے لئے کوئی ایسی ترکیب نکال لی جائے کہ عارضی اور خفیہ طور پہ آگ کو پی جائیں یہ پانی کر کے اور اسے حلال سمجھ کے ضمیر کی ہر خلش سے بھی آزاد ہوجائیں۔ شہوانی محرکات کا جہاں تک تعلق ہے تو صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے ۔ ہیجانی کیفیت طاری ہو تو فرینڈشپ ، عارضی و خفیہ شادی کر کے کسر پوری کر لیں۔ کھلے عام نہ سہی چھپا کے ہی سہی شہوانیات تو عام ہو ہی گئی نا ؟ عورتوں کو پابند کروچادر اور سر سے پیر تک نقاب میں ڈھانکے رہو لیکن انہیں اپنی نفسانی خواہشات کا ایک ذریعہ بنائے رہو ۔ چونکہ یہ جواز عورت و مرد کے لیے یکساں ہے سو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ عورت پہ ظاہراً کوئی ظلم ہو رہا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ یہ صاف دیکھتی ہے کہ اس کا زیادہ نقصان بھی عموماً عورتوں کو ہی ہوگا سوائے ان چند کے جن کے لئے کوئی اقتصادی یا مالی مسئلہ نہیں یا وہ جو پہلے ہی اپنی فطری شرم و حیا سے گریز کئے بیٹھی ہیں۔ ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ اس سے عورتوں کے وقار و عزت میں مزید کمی آئے گی ۔پہلے ہی ہر معاشرے میں چاہے وہ شرق ہو کہ غرب مختلف حیلے بہانے سے مردوں نے عورتوں کو استعمال کیا ہوا ہے اور اسے اپنی حیوانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ایک طرف چادر و نقاب پہنا کے لیکن اپنی پوشیدہ حرم سراؤں کو آباد کر کے تو دوسری طرف اسے آزادی اور برابری کا دلاسہ دے کر سرِعام برہنہ کر دیا ہے۔ ساری دنیا میں لے دے کے اسلام ہی وہ فکری اثاثہ ہے یا طرزِ حیات ہے جو عورتوں کی حرمت ، محافظت، عزت اور وراثت کا داعی ہے اور فطری توازن کے ساتھ مرد و عورت کے حقوق و ذمہ داریوں کی تفصیل فراہم کرتا ہے اور برابری کا ہی درجہ نہیں بلکہ بعض تعلقات و معاملات میں عورتوں کو زیادہ پر وقار بناتا ہے اور انہیں فوقیت بخشتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ داعیانِ اسلام نے ایک علاقائی تہذیب ، کسی قبیلے کی مخصوص ثقافت کو اسلام بنا کر اس کی روح کو پامال کیا ہوا ہے۔ اگر یہ معاملہ اور فتویٰ صرف ایک مخصوص معاشرت و علاقے اور ملک کے شہریوں کے لئے ہے تو اسے اسلام کی ٹوپی کیوں پہنا دی گئی ہے ؟ اسے اسلام کا عمامہ کیوں باندھ دیا گیا ہے ؟ آپ کا جو جی چاہے کرتے رہیں ۔کس نے روکا ہے دورِ جاہلیہ کا رویہ اپنا لیں ؟ کچھ کا کہنا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں بھی لوگ تجارت کے لئے کسی اور شہر جاتے تھے تو وہاں شادیاں کر لیتے تھے سو اسے اسلامی قراردیا جا سکتا ہے۔ قرون اولیٰ میں کوئی ضروری تو نہیں کہ سارے لوگ اسلام کی روح کو سمجھ پائے ہوں۔ انسانی فکر مخصوص دور میں منجمد نہیںہو ئی، یہ سیل رواں ہے اور زمانے کے تغیرات کے ساتھ منسلک ہے اور پھر ایک زمانے سے جو رسم رچی بسی ہووہ فوری طور پہ ختم بھی نہیں کی جا سکتی ، لوگ دور جاہلیہ میں لوٹنے کا کوئی نہ کوئی جواز نکال لیتے ہیں۔اگر لوگ پچاس پچاس بیویاں رکھتے تھے، یا ایک عورت کئی مردوں سے شادی کر لیا کرتی تھی ، یا لوگ قوم لوط جیسی حرکات میں مبتلا تھے یا لونڈیوں کے رکھنے کا عام رواج تھا تو ان ساری باتوں سے کیا اب ایسا کرنے کا جواز نکلتا ہے ؟ اسلام نے زیادہ سے زیادہ چار اعلانیہ شادیوں کی اجازت پورے انصاف اور ذمہ داریوں کے ساتھ دی ہے لیکن کوئی اس اجازت کو صرف دولت و ثروت کا سہارا لے کر اپنی شہوت رانی اور کثرت ازواج کا ذریعہ اس طر ح بنا لے کہ ایک وقت میں چار رکھے لیکن سیکڑوں سے ہم بستری کر کے انہیں طلاق دیتا رہے توکیایہ عمل جائز ہوگا اور اسے اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ انسانیت سے گری ہوئی بات او رعمل کبھی اسلامی نہیں ہو سکتی۔ کچھ خواتین اور مرد یہ بھی کہتے ہیں کہ جب علمانے اس کا فتویٰ دے دیا تو ہم اس پہ اعتراض کر نے والے کون ہوتے ہیں ؟ چند علما کیا خدائی فوجدار ہیں ؟ اسلام کیا چند علما کی بے عقلی کا مرہونِ منت ہے یا کسی خاص علاقے کے لوگوں کے طرز ِ فکر کا پابند ہے۔ یہ ایک عالمی و آفاقی دین ہے۔ پورے عالم اسلام میںلوگ صرف ٦٠ علما کے پیروکار تو نہیں ؟ کیا قرآن ہر ایک کو مخاطب کر کے نہیں کہتا کہ افلا تعقلون ، افلا تدبرون ؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ، کیا تم تدبر و غور و فکر سے کام نہیں لیتے ؟ جو لوگ یا علماصرف دور سے تماشہ دیکھتے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ فرینڈشپ یا عارضی یا خفیہ شادی کی اجازت کم سے کم ہم اپنی بیٹیوں کو تو نہیں دے سکتے۔ آپ کا کہا سر آنکھوں پر لیکن اس کے پیچھے کوئی خیال اور تو نہیں ؟کیوں صاحب کیابیٹے ہی ہر جگہ منہ مارتے پھریں ، کیا کسی اور کی بیٹیوں ، ماؤں ، بہنوں کی کوئی عزت نہیں ؟ کیا دوسروں کے لئے آپ کی حمیت و شرافت و وقار کاپیمانہ دوسراہے ؟ کچھ کا کہنا ہے کہ اگر مردوں کو ہر قسم کی معاشرتی ذمہ داری سے آزادی مل گئی تو یہ ایک اور فتنہ کا دروازہ کھول دے گا۔ المسیار کی موجودگی میں کون اعلانیہ شادی کی مصیبت اٹھائے گا ۔یہ سارے کا سارا نظام Legal Prostitution نظر آتا ہے۔ یہ معاملہ لگتا ہے ہمیں بھی رفتہ رفتہ مغرب زدہ بنا دے گا جہاں اب اکثر مرد اور عورت میاں بیوی کی طرح بغیر نکاح و شادی کے ساتھ رہتے ہیںاور بچے بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ بیویاں بھی بدلتی رہتی ہیں خفیہ طور پہ اور شوہر بھی بدلتے رہتے ہیں خفیہ طور پہ ۔ وہاں کی حکومت اور معاشرت نے ان ساری باتوں کو قبول کیا ہوا ہے۔ اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو انسانی حقوقِ آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس پہ گرفت کرتے ہیں ۔یہ صرف اصطلاح کا فرق ہے اگر وہ اسے انسانی حقوقِ آزادی کی بجائے حیوانی اور شیطانیحقوقِ آزادی کہا کریں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ویسے بھی بعض فلسفیوں اور محققین کے نزدیک انسان حیوانِ ناطق ہی تو ہے۔ انسانی معاشرے میں مرد و زن سے متعلق جو مسائل درپیش ہو تے ہیں، ان کا حل درجہ ذیل ہیں : ١۔ خواتین یامرد کنوارے ہوں۔ عمر بڑھ رہی ہو ، کوئی بر نہیں مل رہا ہو تو فرد و معاشرے کے غیر ضروری اصراف، رسوم و پابندیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ شادیوں میں کوئی دشواری نہ پیدا ہو۔ ٢۔ معاشرے میں بیوگان کی تعداد بڑھ رہی ہو تو ان کے لئے بھی وہی کچھ کیا جانا چاہیے جو اوپر بیان ہوا ہے تاکہ انہیں بھی تحفظ فراہم ہو۔ نکاحِ بیوگان کی ترغیب دی جائے، ٣۔ معاشرے میں طلاق شدہ خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہو تو ان کے لئے بھی وہی کیا جانا چاہیے جو اوپر بیان ہوا ہے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ طلاق کی کثرت کو ختم کرنے کی تدبیر کرنی چاہیے۔شادی میں کفو کا خیال رکھا جائے اور مردوں و عورتوں کی باطنی اصلاح کی جائے تاکہ دونوں شادی کی حرمت ، ایک دوسرے کی عزت و احترام کا خیال محبت کے ساتھ ساتھ رکھیں۔ ایسے ماحول اور طریقۂ زندگی سے بھی گریز کرنا چاہیے جس میں شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے سے بے زاری پیدا ہو۔ اس کے علاوہ ایسے رئیسوںاور بگڑے ہوئے لوگوں کی تربیت اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے جو عورتوں کو اپنی دولت کا سہارا لے کے یا ان کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر یا کسی اور مقصد کے لئے اپنی ہوس کی تسکین کے لئے شادی کرتے ہیں اور اسے تنگ کرتے ہیں یا طلاق دے ڈالتے ہیں۔ ٤۔ عورتوں کی آبادی کی کثرت ہو تو اس کا علاج کثرتِ ازواج ہے لیکن اعلانیہ حلال شادی ہوخفیہ نہیں۔ یہ بھی قدرت کا عجیب انتظام ہے ، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عورتوں کی آبادی زیادہ ہوتی ہے ، مردوں کی عمر عورتوں کے مقابلے میں عموماً کم ہوتی ہے ، فرض کیجیے کہ کہیں مردوں کی آبادی زیادہ ہو بھی تو وہ کسی اور ملک یا علاقے کی کسی ٧ عورت سے اعلانیہ شادی کر سکتا ہے۔ اسلام میں اس کی بڑی گنجائش رکھی گئی ہے۔عورتیں بھی اگر دوسری یا تیسری بیوی نہیں بننا چاہتیں تو کسی بھی مسلمان مرد سے شادی کر سکتی ہیں چاہے وہ ان کے خاندان کا یا ملک کا ہو یا نہ ہو۔ اسلام مذہبِ کائنات ہے اس میں رنگ و نسل کی پیچیدگیاں نہیں ۔ بہت ساری دشواریاں گروہی ، رنگ و نسل کی متعصبانہ رویہ سے پیدا ہوتی ہیں۔کسی بیماری یا سببِ دیگر کے تحت اگر مرد یا عورت حقوق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہوں تو عورت اگر چاہے تو اپنی فطری شرم و حیا کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے وکیلوں کے زریعے یا قانونی طور پہ خلع لے سکتی ہے اور دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ ایک وقت میں اس کے دو شوہر نہیں ہو سکتے لیکن مرد کے لئے پہلی یا کسی بیوی کو طلاق دینا ضروری نہیں۔ وہ انسانی تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے ایسی بیوی سے مشفقانہ رویہ رکھ سکتا ہے اور اعلانیہ دوسری شادی کر سکتا ہے۔ مسائل چاہے جو بھی ہوں ، خفیہ ، عارضی ، فرینڈ شپ ، ویک اینڈ یا طلاق کے ساتھ مشروط شادیاں کبھی بھی اسلامی نہیں کہلائی جا سکتیں۔ ان ساری تجاویز میں بے وفائی ، نفاق ، سخت دلی ، ہوس پروری ، نفس پرستی اور حیوانیت کا عنصر نمایاں ہے جو اسلام کے روح کے خلاف ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کسی غیر اخلاقی عمل کی اصلاح کسی دوسرے غیر اخلاقی عمل سے نہیں ہوتی۔ انسانی ارتقا کو اب اس حد تک تو پہنچ جانا چاہیے کہ مردو زن ایک دوسرے کو انسان ہی سمجھیں اور اس ناطے ایک دوسرے کا احترام ایسے ہی کریں جیسے وہ خود اپنا کرتے ہیں ۔ عورتوں کو کال کوٹھری میں بند کر کے اور اسے سر سے پیر تک مبحھوس کر کے انسانی معاشرت ترقی کر سکتی ہے نہ اسے برہنہ کر کے اورمحافل کی زینت بنا کے اسے آزادی اور برابری کا خواب دکھا کر ۔ احترامِ آدمیت یا انسانیت کے تقاضے اور ہیں ۔ اصل کام اپنے اندر کے جانور اور حیوانیت کو لگام دینے کا ہے۔ اس کی تربیت کر کے انسان بنانے کی اشد ضرورت ہے خصوصاََ مردوں کو اس لئے کہ عورتوں میں ایک فطری حیا عموماً پائی جاتی ہے۔ افسوس کہ ہم اپنی وحشت و بے عقلی میں اللہ کے پیغام کو سمجھ نہیں پائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رسی ، اور دامنِ رسول ۖ کو تھامے رہیے اور عقل کے دریچے کھولئے ، حکمتِ پیغامِ الٰہی کو سمجھئے، صرف رسوم کی آبیاری ، بے عقلی کے فتاویٰ اور اندھی تقلید سے کام نہیں چلے گا۔ کہہ جاتا ہوں میں زورِ جنوں میں ترے اَسرار مجھ کو بھی صِلہ دے مری آشفتہ سری کا http://www.alqamar.info/alqamarnews/news/125/ARTICLE/29915/2009-06-29.html |
Wednesday, June 10, 2009
فتوحات محمد بن قاسم ۔۔ از ماجد خلیل
Tuesday, June 02, 2009
Pak Schools Politics Ruins Jeddah School Affairs
Tuesday, May 26, 2009
Monday, May 11, 2009
Nuclear Power Plans in Saudia ایٹمی بجلی برائے سعودی عرب
Saudi Arabia, despite sitting on the world's largest oil reserves, is considering nuclear technology to drive its power-hungry desalinisation plants, which supply water to the fast growing population. |
Riyadh (AFP) May 10, 2009
France and Saudi Arabia are close to finalizing a civil nuclear cooperation pact which could lead to the sale of French atomic energy technology, French Economy Minister Christine Lagarde said on Sunday.
A deal could be completed "soon," Lagarde said after a day of meetings with top Saudi economic and energy officials as well as Saudi King Abdullah.
"The talks have progressed well," she added.
Lagarde gave no details of what would be covered by the agreement, but officials said it could be completed and signed by the end of 2009.
Saudi Arabia, despite sitting on the world's largest oil reserves, is considering nuclear technology to drive its power-hungry desalinisation plants, which supply water to the fast growing population.
Riyadh last year signed a pact with Washington on civil nuclear cooperation, which the United States hopes will open the way for sales of US nuclear technology and equipment to the Saudis.
Lagarde was on a one-day visit to Riyadh to discuss bilateral economic issues and promote France's energy and transport sectors.
She said she held talks with Saudi oil officials on how to stabilise oil prices, which have swung wildly in the past year, and that a working group on the issue could meet soon in Paris.
"We want less volatility, more predictability," Lagarde said late Saturday after arriving in Riyadh.
She added that oil prices, currently around 57 dollars a barrel, would be reasonable at between 70 and 80 dollars a barrel, roughly half of the peak hit in July 2008.
"Most people would agree that anywhere between 70 and 80 dollars would be good," she said.
Monday, May 04, 2009
50 years old divorces his 9 year old bride
Sunday, April 12, 2009
Saudi Power Struggle .... All within the family
A dispute over Saudi Arabia's royal succession burst into the open yesterday, revealing a power struggle in which one of the most senior princes in the oil-rich kingdom is reported to have disappeared. The prospect of instability in a country that is not only the world's largest oil exporter but also a key Western ally at the heart of the Middle East will cause serious concern in Washington, London and beyond.
Rumours are rife over the position of Prince Bandar bin Sultan, 60, son of the heir to the Saudi throne, who has not been seen in public for weeks. Prince Bandar is better known abroad than almost any other member of the Saudi royal family, not only for his extravagant lifestyle, but because of his daring foreign policy initiatives during 22 years as the Saudi ambassador in Washington, where he played an important role after 9/11 and during two Gulf wars. His absence from public life comes at a sensitive time in Saudi Arabia: his father, Crown Prince Sultan, is gravely ill with cancer, throwing the succession to King Abdullah into question.
One theory in political circles in Riyadh is that Prince Bandar was seeking to oust King Abdullah before Prince Sultan dies, thus placing his father on the throne. Other rumours claim that Prince Bandar is ill, or that he angered King Abdullah by dabbling in Syrian politics without authorisation. The Saudi embassy in London could not be contacted for comment last week, but this weekend political tensions in the kingdom came dramatically to the surface.
On Friday night King Abdullah unexpectedly announced the appointment of one of his half-brothers, Prince Nayef, the 76-year-old interior minister, to the post of second deputy prime minister, which had been left vacant. This was immediately taken as an indication that he would become crown prince when Prince Sultan dies or becomes king. But yesterday Prince Talal, another senior figure, publicly demanded that the king confirm that the appointment did not mean Prince Nayef would automatically become the next crown prince. Such public disagreement among senior Saudi royals is highly unusual.
Another indication of friction among the many descendants of the founder of Saudi Arabia, King Ibn Saud, who had 22 wives and more than 50 children, was the publication of a report last week by the Saudi National Society for Human Rights, one of the country's two human rights organisations. It was highly critical of Prince Nayef's draconian interior ministry, and is unlikely to have been released without the express say-so of another powerful member of the royal family.
Both Crown Prince Sultan and
Prince Nayef are members of the "Sudairi Six", the powerful surviving sons of Ibn Saud and his favourite wife, Hassa bint Ahmad Al-Sudairi. The seventh and eldest brother was King Fahd, who died in 2005; when he nominated his successor, in line with tradition, he bypassed his full brothers and chose Abdullah as crown prince.
The vying for position is intensified by Crown Prince Sultan's poor health. Aged about 85, he was first diagnosed with colon cancer in Jeddah in 2004. He has received treatment in Geneva and the US, and spent time convalescing in Morocco. Throughout his illness, Prince Nayef and another of the six brothers – Prince Salman, 73, the governor of Riyadh and another potential candidate for the succession – have stayed close to the crown prince's side. Three weeks ago Prince Nayef surprised viewers of prime-time Saudi TV by telephoning in during the news hour to tell viewers that Prince Sultan was recovering well, and would be returning home soon.
More independent information about the prince's condition has been suppressed, however. Last year, the long-serving Reuters bureau chief in Riyadh, Andrew Hammond, was told to leave the kingdom after reporting that Prince Sultan had cancer.
"I think Prince Nayef will be the next crown prince, because he is responsible for sensitive issues like security and he is supported by the players in the royal family," commented Abdul Aziz Al Khamis, the Saudi editor of Arabian Observer magazine, "but it is like a card game. Each plays his cards – power, security, money – and it's a very tough game."
Analysts believed King Abdullah, aware that his chosen successor might die before him, was thinking of skipping a generation in the nomination for his new deputy, in order to prevent a long procession of octogenarian kings as power passes from one elderly brother to another. But Friday's nomination of Prince Nayef, a hardliner whose rise to the throne would dismay many in the West, may have eliminated that possibility.
Since 2007 the mechanism for determining succession in Saudi Arabia has been the responsibility of the allegiance council, a 35-member official body formed from the sons and grandsons of Ibn Saud. Designed to smooth the transfer of power, the council promises the first Saudi succession decision to be made by consensus. Its creation by King Abdullah was widely praised by the West, but it may yet prove difficult for him to influence its decision, since the Sudairi Six are thought to have influence over more than half the council members.
To reduce the chance of a military coup, Saudi Arabia maintains a number of more or less equally powerful military forces, each under the command of different princes. King Abdullah controls the National Guard, but Prince Nayef heads the powerful interior ministry forces while also enjoying the support of Khaled bin Sultan, who has been effectively running the army on behalf of his invalid father for months.
Since the modern state of Saudi Arabia was founded in 1932, power has always transferred without civil strife, even though in 1975 King Faisal was assassinated by his half-brother's son. But in the more distant past, disagreements over succession often turned nasty. At the end of the 19th century, the second Saudi state destroyed itself through fratricidal conflict. In recent times Saudi Arabia has been rocked by jihadi violence and demonstrations by its Shia minority, and most observers expect the transition will in the end be peaceful.
"They have already destroyed themselves once by brother turning on brother," said Mr Al Khamis. "I don't think they will do it again." Sir Alan Munro, the former British ambassador to Saudi Arabia, said: "In this very powerful family there could be some measure of negotiation over nomination and succession, but I expect eventually it will turn out to be a smooth process."
Monday, February 16, 2009
Female Maids in Saudi Arabia: Protection of
Saudi Arabia has scores of such instances.
The countries sending their maids there need to have a top level agreement with the Kingdom.
Such regulations, among other things, should include:
1- Payment of their regular monthly salaries in to a bank account, under the care of respective embassies
2- Monthly visits to them by the welfare counselor of respective embassies to inquire about their welfare
3- Strict laws to punish the abusive masters, who violate the monetary. legal, and moral values
4- Fixing of work hours, and ensuring that such a time table is adhered to
5- Telephone access facility - two way - to their embassies
6- Recreational leaves during their contract period, to help them keep their mental balance and health
7- Quarterly health checks, and direct reports to the embassies
8- “Transfer” of maids on a temporary basis should be made illegal. If the masters go somewhere leaving the maid alone, she should go to a safe house run by their embassies, for that period …
9- Physical punishment, and abuses of ALL kind should be monitored and punished accordingly
Many more similar points could be thought about and a legal frame-work devised. It should be noted that this problem is faced by maids working from a common man’s level to the highest places there. Recently a US Court has convicted a royal for similar abuses.
A true face of Saudi Arabia can be found in many a books written about this place. One such book is “Zar Grifth”. This book is written in Urdu language, and is studded with a large number of caricatures, interesting stories, and a picture of the life of Saudis and foreigners living there has been splendidly been painted in a light and humorous style.
For more about Zar Grifth, visit http://www.zargrifth.blogspot.com, andhttp://www.justuju.reallifelog.com.
Thursday, February 12, 2009
Thursday, January 29, 2009
Thursday, January 15, 2009
Sunday, December 07, 2008
Mina: Residential Towers for Hajis عازمین حج کیلئے پہلی مرتبہ رہائشی ٹاورز کی تعمیر
عازمین حج کیلئے پہلی مرتبہ رہائشی ٹاورز کی تعمیر
جدہ (مانیٹرنگ ڈیسک)رواں سال حج سیزن میں سعودی حکام نے پہلی مرتبہ منیٰ میں رہائشی ٹاور تیار کئے ہیں۔ایک عرب ٹی وی کے مطابق سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اس تجربے کی کامیابی کی صورت میں منیٰ کے خیموں کو رہائشی عمارتوں اور ٹاوروں سے تبدیل کردیا جائے گااورعلما ءکرام کی جانب سے اس کے جواز کا فتویٰ آچکا ہے ۔تجرباتی طور پر بنائے گئے 6رہائشی ٹاوروں میں 25 ہزار حجاج کرام کی گنجائش ہے ۔
|
Monday, November 24, 2008
Thursday, October 23, 2008
Saudia Bans Pak UnSkilled Illiterate Labor
سعودی عرب نے پاکستان سے اَن پڑھ اور غیر ہنرمندافرادی قوت کی درآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی ہے،مقصد سعودی صنعت اور تمام نجی و سرکاری شعبوں کو بہترین ہنر مند و تعلیم یافتہ افرادی قوت دینا ہے جوعالمی معیار کے مطابق ضرورت کو پورا کرے،اِن اقدامات کا مقصد پاکستان سے افرادی قوت کی درآمد روکنا قطعاًنہیں جبکہ پاکستا ن سعودی عرب کا انتہائی قریبی بردار ملک ہے ، جاری عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے اور پاکستان کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے سعودی عرب کا ہر ممکن تعاون جاری رہے گا ۔ بدھ کے روزاسلام آباد میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے جاری کر دہ بیان کے مطابق سعودی عرب نے افرادی قوت کی درآمد کے لئے قوائد و ضوابط میں چند نئی تبدیلیاں کیں ہیں جس کے تحت پاکستان سے درآمد کی جانے والی افرادی قوت کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہو گااور خواہشمند حضرات کو قومی زبان اردو کو لکھنا اور پڑھنا جاننا انتہائی ضروری ہے کیونکہ سعودی حکام کو ان پڑھ افراد سے قانونی اور امیگریشن معاملات طے کرتے ہوئے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑھتا ہے جبکہ اِس نئی حکمت عملی اور قوائد و ضوابط کیحوالے سے تمام ریکروٹمنٹ ایجنسیوں اور افرادی قوت برآمد کرنے والے اداروں کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے اور آئندہ تمام درخواستیں اسی نئے قانونی طریقہ کار کے تحت نمٹا یا جائے گا ۔ سعودی سفارتخانے سے ذرائع نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ اِن اقدامات کا بنیادی مقصد سعودی صنعت اور تمام شعبوں کو بہترین ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت دینا ہے تا کہ سعودیہ کے تمام کاروباری ، نجی و سرکاری شعبوں کو عالمی معیار کے مطابق ہیومن ریسورس فراہم کیا جا سکے جبکہ اِن اہم اقدامات کا قطعاً مقصد پاکستان سے افرادی قوت کی درآمد روکنا نہیں بلکہ برادر ملک میں ہنر مند افرادی قوت کے لئے کیے جانے والے اقدامات کو مزید موثر بنانا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستا ن سعودی عرب کا انتہائی قریبی بردار ملک ہے اور مشکل میں سعودی عرب ہر ممکن امداد کرتے رہیں گے جبکہ ہم شدت سے صدر آصف علی زرداری کے دورہ سعودی عرب کے منتظر ہیں جس سے پاک سعودیہ تعلقات میں مزید وسعت آئے گی ۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ پاک سعودی تعاون کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہمارے مابین انتہائی بردارانہ تعلقات ہیں ، جاری عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے وجاری مشکلات میں پاکستان تنہا نہیں چھوڑ سکتے ہر ممکن تعاون جاری رکھیں گے ۔ |
Sunday, September 14, 2008
بنگہ دیشی کارکنوں کو سعودی عرب میں ملازمت کی دشواریاں
بیرون ملک قیام کے دوران جرائم میں ملوث ہونے کی خبروں کی اشاعت نے بنگلہ دیشی شہریوں کیلئے سعودی عرب میں ملازمتوں کا حصول مشکل بنا دیا۔ سعودی دارالحکومت ریاض میں بنگلہ دیشی سفارتخانہ کے سینئر عہدیدار وحید الرحمن نے سعودی ذرائع ابلاغ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ رواں سال کے پہلے چار ماہ کے دوران 8 ہزار بنگلہ دیشی خواتین و مرد سعودی عرب آئے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی گھریلو ملازم، ڈرائیور یا زرعی زمینوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی حیثیت سے ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا حالانکہ سعودی وزارت محنت نے بنگلہ دیشی شہریوں کے حوالہ سے کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔ سفارتکار نے کہا کہ اس صورتحال نے سعودی عرب میں نرسوں اور ڈاکٹروں کی حیثیت سے ملازمتیں کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کو بھی تشویش اور غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ سعودی تجزیہ نگاوں کے مطابق اس صورتحال کا باعث اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں ہیں جن کے مطابق بنگلہ دیشی شہری جو اس وقت عرب اور خلیجی ریاستوں میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہیں، کی اکثریت جرائم میں ملوث پائی جاتی ہے۔ |
Saturday, September 06, 2008
Thursday, August 21, 2008
Tuesday, July 01, 2008
Sunday, June 29, 2008
Wednesday, May 28, 2008
Monday, May 19, 2008
Saturday, September 15, 2007
Monday, March 28, 2005
Sunday, March 27, 2005
Wednesday, March 16, 2005
Friday, March 11, 2005
Wednesday, March 09, 2005
Where to find Zar Grifth in Pakistan
2- Liberty Books - London Book Company - Tel: 051-282-3852
Rawalpindi:: 3- Liberty Books - International Book Service - Tel: -442-0924
4- Paramount Publishing - Khan Book Agency - Tel: 051-553-2306
Abbotabad:: 5- Paramount Books - Tel: 0992-340001
Lahore :: 6- Kitab Serayay, Al Hamd Market, Urdu Bazar - Phone: 042-732-0318
7- Liberty Books - Variety Books - 042-575-8355
8- Paramount Publishing - Tel: 042-630-1239, 636-1494
Quetta :: 9- Liberty Books - Book Land - Phone: -824-295
Peshawar:: 10- Paramount Publising - London Book Company - Tel: 091-272-722
Karachi :: 11- Fazlee Sons, Urdu Bazar - Phone: 021-262-9724
12- Paramount Publishing Enterprise - Phone: Office .. 021-431-0030
13- Paramount Publishing Enterprise - Airport International Lounge: 021-457-91205
14- Paramount Publishing Enterprise - Airport Domestic Lounge: 021-457-91262
15- Say Publishing, Bahadurabad - Phone: 021-493-3029
16- Say Publishing, Defense Society - Phone: 021-585-1808
17- National Book Foundation - Liaquat Library, Stadium Road-Phone: 021-923-1088
18-Time Books, Near National Stadium - Phone: 021-494-8686
19-Liberty Books - Pearl Continental Hotel - Phone: 021-521-9829
20-Liberty Books - Sheraton Hotel - Phone: 021-568-8374
21-Liberty Books - Marriott Hotel - Phone: 021-521-6532
22-Liberty Books (Alternate)- Near Pizza Hut, Boat Basin, Clifton - Tel: 021-537-3443
23-Liberty Books-Dolmen Mall, Tariq Road, PECHS - Tel: 021-438-7085
24-Liberty Books - Books & More, Park Towers, Clifton - Tel: 021-583-2525 x 125
25-Liberty Books - Park Towers, Clifton - Tel: 021-583-2525 x 111
26-Liberty Books- Near Barbeuqe Tonite, Clifton - Tel: 021-537-4153
27-Liberty Books - The Forum, Clifton - Tel: 021-538-1275-76, 583-2687-88
28-Liberty Books-Agha SuperMarket, Clifton - Tel: 021-583-3119-21
In case of any problems, please send an eMail to: hashims@gmail.com
PLEASE NOTE DO NOT PAY MORE THAN RS. 299 ... THE PUBLISHED PRICE FOR THE FIRST INTRODUCTORY EDITION ... SEND OVERPRICING COMPLAINTS BY EMAIL TO: hashims@gmail.com
1. Hashim Syed | December 21, 2006 at 9:04 pm