Justuju Tv جستجو ٹی وی

Thursday, November 05, 2009

سنگِ اسود کا بوسہ لینے میں احتیاط کیجئے ! ,,,,انداز بیاں …سردار احمد قادری

سعودی عرب کے سینئر علما بورڈ کے رکن عبداللہ بن محمد المطلق نے کہا ہے کہ اگر عازمین حج کو یہ خدشہ، ڈر یا خوف ہو کہ سنگِ اسود کا بوسہ لینے سے انہیں سوائن فلو یا میکسیکن فلو لاحق ہوسکتا ہے تو ایسے افراد سنگِ اسود کا بوسہ لینے سے گریز کرسکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ مناسک حج ملتوی نہیں کئے جا سکتے (کچھ علما حضرات کا خیال ہے کہ امسال حج ملتوی یا روک دیا جائے) اور نہ ہی سنگِ اسود کا بوسہ لینے سے عازمین کو روکا جا سکتا ہے۔ اس سوال پر کہ اگر عازمین یہ جانتے ہوئے کہ وہ علیل ہیں یا کسی وبا میں مبتلا ہیں یا کسی اچھوت بیماری کا شکار ہیں اور اس کے باوجود وہ سنگِ اسود کا بوسہ لے رہے ہیں تو اس سلسلے میں آپ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ عبداللہ بن محمد المطلق نے کہا کہ عازمین کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنا مرض یا بیماری دوسروں تک پھیلائیں۔ چونکہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اس لئے ایک بھائی جو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے وہی وہ دوسرے کے لئے بھی بہتر جانتا ہے۔ کوئی مسلمان یہ گوارا نہیں کرے گا کہ وہ اپنا مرض دوسروں تک پھیلائے۔ قبل ازیں سعودی حکام کی جانب سے عازمین حج کے لئے چند ہدایات جاری کی گئی ہیں، انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ عازمین ”مخالف جنس“ سے بات چیت نہ کریں، راستہ بھولنے کی صورت میں ”مخالف جنس“ سے مدد نہ طلب کریں، خواتین کی تصویریں نہ لیں، مرد عازمین بسوں میں خواتین کے قریب نشست پر نہ بیٹھیں اور نہ ہی خواتین مردوں کے قریب بیٹھنے کی کوشش کریں۔ دوسری طرف سرکاری خبر رساں ایجنسی منا کے مطابق سعودی وزارت صحت نے بچوں، حاملہ خواتین اور دائمی و دیرینہ امراض میں مبتلا یا سوائن فلو سے متاثرہ افراد کو حج اور عمرہ ادا نہ کرنے کا انتباہ کیا ہے۔ مصر نے سوائن فلو کے خطرے کے پیش نظر اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کا سفر اختیار نہ کریں۔ سعودی عرب کے شہروں مکہ اور مدینہ میں 25 لاکھ عازمین حج کی آمد متوقع ہے۔
ادھر سعودی حکام نے عازمین حج کو وارننگ دی ہے کہ انہیں دوران حج سیاسی مسائل اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی اور اگر کسی نے احکام کی پابندی نہ کی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اس سال سعودی حکام حرمین پہنچنے والے مسلمان ایرانی مذہبی رہنماوٴں کی باتوں سے حد درجہ مضطرب و پریشان ہیں۔ انہوں نے عازمین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”بیت اللہ کا حج کرنے والے ان مسائل و مشکلات سے ہرگز لاتعلقی اور بے پروائی اختیار نہ کریں جن مشکلات کا سامنا آج عالمِ اسلام کو بالخصوص عراق، افغانستان، فلسطین اور پاکستان کے ایک حصے کو ہے“۔ ایرانی آیت اللہ کی بات ایرانیوں کے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی حیثیت کسی صحافی یا جمعہ کے خطیب جیسی نہیں ہوتی کہ ان کی بات ایک کان سے سنی جائے اور دوسرے کان سے اڑا دی جائے۔ ان باتوں پر ترکی کے وزیراعظم یا سعودی وزیر خارجہ کی جانب سے جو احتجاج کیا گیا ہے ممکن ہے حکومت ایران اس کا یہ جواب دے کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے لیکن میرے حساب سے وہ اسی مظاہرے اور احتجاج کا سبق پڑھا رہے تھے جس نے اسّی کی دہائی میں اسلام کے ایک رکن حج کو گدلا کردیا تھا اور دنیائے اسلام کو پریشانیوں میں ڈال دیا تھا۔ حج کے موقع پر صرف ایک یہی پریشانی نہیں عازمین حج کے اخراجات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ عازمین حج کے فضائی کرایوں میں پہلے ہی اضافہ ہوچکا ہے، اب حرم کعبہ کے اطراف رہائش کے لئے رہائشی اخراجات میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ مسجد الحرام کے اطراف گرین ایریا میں شیلٹرز کی شرح 2700 سعودی ریال سے بڑھا کر 3500 ریال کردی گئی ہے۔ دوسری رہائشی پٹی میں جسے وائٹ ایریا کہا جاتا ہے رہائشی فیس 1600 ریال سے بڑھا کر 2500 ریال کردی گئی ہے۔ اسی طرح بیرونی احاطہ میں رہائشی فیس 1200 سے بڑھا کر 1500 ریال کردی گئی ہے۔ چونکہ فضائی کرائے کے زمرے میں پٹرول کو جواز بنایا گیا ہے اس لئے پٹرول کے ساتھ حج بھی مہنگا ہوگیا ہے۔
اب حج کی بات چلی ہے تو کیوں نہ اپنے ذہنی خدشات، سوالات اور تحفظات کی بات بھی کرتا چلوں۔ سوال یہ ہے کہ جن لوگوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات کو دیانت دارانہ طریقہ پر ہم تک پہنچائیں کیا وہ اپنے اس فرض کو ادا کرنے میں دیانت دار رہتے ہیں؟ یا انہوں نے خود کو ”دینی و مذہبی حکمران“ سمجھ کر مسلمانوں کو چرب زبانی کی لاٹھی سے پیٹ پیٹ کر ”سیدھا“ کرنے کی قسم کھا لی ہے۔ وہ صرف اسلام اسلام کے ورق کوٹنے پر لگے ہوئے ہیں اور صحیح جواب دینے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ مذہب یا دین سے متعلق کسی سوال کا تشفی و تسلی بخش جواب دے سکیں۔ میرے ساتھ خود کو ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔ میں نے ایمسٹرڈیم میں مولانا طاہر القادری کو ایک اجتماع میں ایک تحریری سوال نامہ پیش کیا جو ان کے نائبین نے وصول کرکے مولانا کی خدمت میں پیش کیا۔ میرا پہلا سوال تھا کہ حج بدل کا حکم قرآن کریم کی کس آیت میں ہے؟ دوسرا سوال یہ تھا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر جو قربانی مسلمان کرتے ہیں کیا مقام حج کے علاوہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے؟ اگر یہ فرض ہے تو اس کا حکم غیر مقام حج کیلئے قرآن کی کس آیت سے ثابت ہے؟
حج بدل کا کوئی حکم میری نظر سے نہیں گزرا۔ یہ سلسلہ کیسے قائم ہوا اور کس نے ایجاد کیا اس پر میں یہاں بحث نہیں کروں گا صرف اتنا عرض کروں گا کہ مرنے کے بعد انسان کا عمل سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی کتاب عمل بند کردی جاتی ہے اور قرآن کریم کا صاف اعلان ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی دوسرا نہیں اُٹھائے گا۔ کیا کوئی مفتی دین یا کوئی اور واعظ و شیخ تاریخ سے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ کسی صحابی نے حج بدل کیا ہو؟ یا حضور اکرم یا خلفائے راشدین  کے زمانے میں مسلمانوں میں حج بدل کا رُجحان قائم ہو؟ اسی طرح غیر مقام حج پر جانورو کی قربانی کیسے واجب ہے ، میں نے اس سلسلے میں قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے، مجھے اللہ کی بات میں کوئی حوالہ نہ ملا۔ پھر میں نے رسول اللہ کی مقدس سوانح حیات کا مطالعہ کیا میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ آپ نے ان ایام میں جب آپ نے حج ادا نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ہو۔ میں مانتا ہوں کہ دین کے معاملے میں ایک طالب علم ہوں یا دین کے معاملے میں نابینا رہا ہوں، ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم میں وہ آیات مجھ کو نظر نہ آئی ہوں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ قربانی دنیا کے ہر اہل زر مسلمان پر واجب ہے۔ قربانی سے متعلق قرآن میں سورة البقرة کی آیت ۶۹۱، سورة الحج کی آیت ۴۳،۸۱ اور 37، 36 ہے جو حج سے ہی وابستہ ہے لیکن ان میں کہیں بھی کوئی ایسی بات درج نہیں جس سے میری تشفی ہوسکے۔ ہے کوئی دانشور، علما و مشائخ جو میری اس تشنگی کو قرآنی آیات کے حوالے سے بجھائ

No comments: